صحت ڈاٹ نیٹ پر ہربل طریقہ علاج

،احتلام،سرعت انزال کا مکمل علاج

٭مشت زنی انگشت زنی٭ 
ماہرین صحت اقوام عالم نے جو بات نوٹ کی ہے وہ خود لذتی کی عادت ہے دنیا میں بہت کم انسان ایسے ہوں گے جو اس عادت بد سے بچے ہوئے ہوں گے یہ عادت بد زمانہ قدیم سے ہی چلی آ رہی ہے گو اس کے اثرات اتنے تباہ کن نہیں جتنے کہ لوگ خیال کرتے ہیں ۔ پھر بھی اگر لوگ اس عادت بد پر قابو پا سکیں تو یہ انسانی صحت و تندرستی کے لئے بے بہا نعمت ہے اگر بچپن میں ہی ایسا ماحول پیدا کر دیا جائے کہ اس سے کثرت نہ ہو تو اس کے اتنے تباہ کن اثرات پیدا نہ ہوں ۔٭کثرت خود لذتی 
کثرت خود لذتی کے جو برے اثرات نازک اعضاء پرمرتب ہوتے ہیں ان سے کسی کو بھی انکار نہیں جبکہ نفسیاتی اثرات بے حد زیادہ ہیں اس سے ذہنی برائیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں اور انسان کے اندار ایک عجیب سی کش مکش شروع ہو جاتی ہے ۔ ایک طرف نوجوان کوشش کرتے ہیں کہ یہ عادت بد ختم ہو جائے تو دوسری طرف اس کی کشش انہیں اس عادت بد کی طرف چمٹا دیتی ہے اور اس طرح نوجوان اس کش مکش میں مبتلا ہوکر ذہنی طور پر اسے آپ کو بیمار زدہ بنا لیتے ہیں۔ اور ان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو نقصان پہنچاتی ہے ۔یہ کشمکش انسان کی دوسری اہم فطری بھوک کے خلاف ہے ۔

٭ابتداء
یہ عادت بچپن سے شروع ہو کر بلوغت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتے ہوئے نو جوان میں پختگی اختیار کر جاتی ہے اور اس کا تجسس بچے کے اندر وہ تجسس ہوتا ہے جو اپنے جسم کے حصوں کو جاننے کی کوشش میں یا جنسی اعضاء میں کسی تکلیف کے باعث بچہ بہت جلد اس لذت سے آشنا ہوکر پہلے شوقیہ اس لذت میں گرفتار ہوتا ہے اور بعد میں یہ عادت پختہ ہو کر لذت جسمانیہ و دہنیہ سے کشمکش حیات میں مبتلا کر کے اذیت کا باعث بن جاتی ہے اور پھر کسی بھی قسم کا ڈر اور خوف انہیں اس عادت سے نجات نہیں دلاتا بلکہ رغبت کو مزید بڑھاتاہے ۔

٭وجوہات

اس عادت بد کی وجو ہات یوں تو کئی ہیں لیکن ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں ۔ ۱۔
 بعض والدین کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بچے اس عادت میں مبتلا نہ ہوں ایسے میں وہ بچو ں کو ڈھیلے ڈھالے پاجامے اور قمیض پہناتے ہیں۔ سروں اور آستینوں کو باندھ دیتے ہیں تاکہ بچہ اپنے اعضاء سے کھیل نہ سکے مگر اس کا الٹا اثر یہ ہوتا ہے کہ بچے کے اندر جاننے کا تجسس اس عادت بد کی طرف اس کی راہنمائی زیادہ کرتا ہے اور حالات والدین کی نظروں سے اوجھل ہونے کی وجہ سے بچہ ان ممنو عات میں پھنس جاتاہے ۔ ۲۔ بعض ممالک میں دھات کے بنے ہوئے ایسے آلات لڑکے اور لڑکی کے جنسی اعضاء پر کس دیے جاتے ہیں جس سے وہ اپنے ان اعضاء سے کھیل نہ سکے اس کا نفسیاتی اثر والدین کے نقطہ نظر کو اپنانے کے بر عکس ہوتا ہے اور بچے ہر وقت انہی اعضاء کے تجسس میں سوچ بچار میں لگے رہتے ہیں جس سے ان کے اندر ایسی خواہش کی زیادتی پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ان اعضا میں کھجلی پیدا ہوتی ہے جو ان کو مجبور کرتی ہے کہ تخلیہ ملتے ہی اس سے لطف اندوز ہو سکے ۔۳۔ بعض بچے پیدائشی لحاظ سے گہوارے ہی میں کسی انفیکشن کی وجہ سے ان جنسی اعضاء کی تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور یہ تکلیف ان بچوں کو جنسی اعضاء کی طرف زیادہ راغب کر کے اس عادت بد میں مبتلا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ ان تکا لیف میں ان اعضاء پر پھوڑے پھنسیاں ، گزیما ، کھجلی وغیرہ ہوتی ہے جو خود لذتی کی محرک بن جاتی ہے ۔ ٭اثرات 
اس عادت کے جدا گانہ اثرات مرد اور عورت ایک دوسرے سے بھاگتے ہیں اور اس طرح ذلت آمیز زندگی گزارتے ہوئے ایک ایسی حد تک پہنچ جاتے ہیں جہاں انہیں خود کشی کے سوا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا چہرے مہر ے سے ہی اکثر یہ بار سامنے آجاتی ہے کہ یہ شخص ایسی حرکت بد میں مبتلا ہے کیونکہ چہرے کی خوبصورتی ، حسن و رعنائی گہنا کر اسے سدا کا مریض ظاہر کرتی ہے اور اس سے انسان کے اندر ہمہ وقت تھکن ، نا امیدی ، مرجھاہت چمکتی نظر آتی ہے ۔
 ٭نفسیاتی علاج
اس عادت بد کا علاج صرف ادویات ہی نہیں ہیں اور نہ ہی نام نہاد اور پیشہ ور ڈاکٹروں اور حکماء سے اس کا علاج کروانا ضروری ہے بلکہ اس سے چھٹکارہ پانے کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ کسی اچھے ماہر نفسیات کی خدمت حاصل کی جائے تاکہ وہ انسان کے اندر چھپی ہوئی وجو ہات کو نکال باہر کرے جو اس کا باعث بنتی ہیں اور مریض کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو یہ بات جان لینا چاہیے کہ خود اعتمادی کے بغیر دنیا کا کوئی بھی کام یا کسی بھی مرض کا علاج ممکن نہیں ہے۔ خود اعتمادی سے احساس شرم ختم ہو کر اس کے اندر اس کو یہ عادت چھوڑنے کے لئے ہمت ، قوت پیدا کرتی ہے اور وہ با آسانی اس عادت بد کوچھوڑنے کی تگ و دو میں کامیاب ہو کر با مقصد زندگی کی طرف واپس لوٹ آتی ہے اس کے ذہن میں یہ بات بھی اجا گر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس سے اس کی سماجی زندگی میں کسی بھی قسم کا فرق نہیں آتا اور نہ ہی انکی فطری طریقے سے جنسی تسکین کے عمل میں کسی بھی قسم کا کوئی بھی فرق نہیں پڑتا ہے صرف اس کا احساس شرم ہی اس کے اس راستے میں رکا وٹ ہے اور جیسے ہی یہ ختم ہو گا وہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئے گا ۔

٭ادویاتی علاج
ایسے مریضوں کو صرف وہ ادیا ت استعمال کرائی جائیں جو ان کیلئے از حد ضروری ہوں اور جن کا تعلق اس کے اندر پہلے سے موجود کسی بیماری کے باعث ہو یا ان کے اندر بڑھی ہوئی جنسی خواہش میں کمی کا باعث ہو سکیں البتہ ان دواؤں کی عادت نہیں ڈالنی چاہیے کہ وہ ایک عاد ت بد کوچھوڑتے ہی دوسری عادت بد میں مبتلا ہوجائیں ۔ البتہ عضوی خرابیوں کی صورت میں مناسب ادویات سے ان کا علاج کیا جائے ۔

٭یقین 
 مریض کے اندر ان صحیح نظریات کی پر واخت کرسکیں تو باآسانی خود کار طریقے سے اس عادت بد کو چھوڑنے کے قابل ہو گا اور تھوڑے ہی عرصے میں اس سے مکمل چھٹکارہ پاکر زندگی کی حقیقی مسرت کی طرف واپس لوٹ آئے گا اور تازہ زندگی و خوش خرم زندگی گزار سکے گا۔
دور جدید میں جنسی انحرافی کی جو صورتیں مروج ہیں ان میں عام طور پر مردوں میں خود لذتی Masturbationاور عورتوں میں خود لذتی Wasturbation پائی جاتی ہے جن پرمختصر روشنی ڈالی جاتی ہے ۔

٭مردانہ خود لذتی Masturbation 
اسے حرف عام میں مشت زنی سے تعبیر کیا جاتا ہے جب جنس میںآدمی اس قدر دیونہ بلکہ اندھا ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت کے فطری تعلق سے ہٹ کر مرد مردوں سے جنسی تسکین حاصل کرنے لگتا ہے ۔ جسے ہم جنس پرستی کہتے ہیں۔بہر حال اس میں مرد اپنے ہی ہاتھوں اپنے عضو تناسل کوبہلاتا ہے اور رگڑتا ہے اور اس طرح منی کا آخراج کر کے جنسی تسکین حاصل کرتا ہے ۔ مشرقی معاشرے میں اس کی بنیادی وجہ بلوغت کے زمانے میں گندا ماحول ، فحش فلمیں اور تصاویر اور سنی سنائی غلط باتیں نو جوانوں کے اندر ہلچل مچا کر اسے اس فعل کی طرف آمادہ کرتی ہیں اور پھر رفتہ رفتہ وہ اس کا عادی بن جاتا ہے ۔ جس سے کئی قسم کی نفسیاتی و بدنی الجھنیں پیدا ہو کر احساس کمتری کا شکا ر بنا دیتی ہیں اور ایسا شخص اپنے آپ کو شادی کے نا قابل سمجھناشروع کر دیتاہے ۔شادی ہو جانے کی صورت میں اپنے احساس کمتری کے باعث شرم ساری اٹھا تا ہے اور اپنی ازدواجی زندگی میں انتہائی نا خوشگوار اثرات مرتب کر کے اسے بر باد کر دیتا ہے اور اس طرح نقصان کے ہاتھوں خود بھی ذلیل ہوتا ہے اور اہل خانہ و خاندان کو بھی شرمندگی کے سمندر میں دھکیل کر اذیت کوشی کا باعث بنتا ہے ۔
٭مردانہ خود لذتی کے نقصانات
مشت زنی سے عضو مخصوص کے نرم و نازک ریشوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔کیونکہ انسان کا ہاتھ عور کی اندام نہانی کے مقابلے میں سخت ہوتا ہے عضو تناس کے سب سے نازک حصے حشفہ یا سپاری یعنی عضو تناسل کے منہ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچتاہے کیونکہ عضو تناس کا یہ حصہ بے حد حساس ہوتا ہے مشت زنی سے اس کی حساسیت اور بڑھ جاتی ہے اور کھنچاؤ کی وجہ سے سپاری کی کھال سکڑ جاتی ہے۔ اور اس پر جھریاں سی پڑ جاتی ہیں عضو تنا سل کی حسا سیت بڑھنے سے ذکاو ت حس بہت بڑھ جاتی ہے اور بار بار نا مکمل انتشار آنے کی وجہ سے انسان سرعت انزال کا مریض بن جاتا ہے ۔ جس سے بیوی کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذکاوت حسی کی وجہ سے انسان کو اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اور کھانستے وقت پیشاب کے لیس دار قطرے خارج ہوتے ہیں جن میں منی بھی شامل ہوتی ہے اور طہارت کا مسئلہ بھی در پیش ہوتا ہے ۔ اس کے علاہ عضو تناسل درمیان سے پتلا اور جڑ سے موٹا ہو جاتا ہے ۔ اس سے کجی لاغری آجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ فعل مباشرت صحیح طریقے سے نہیں کر سکتا اور نہ تو خود اور نہ ہی اپنی بیوی کو تسکین جنسی باہم پہنچا سکتا ہے۔ بوقت دخول ہی تناؤ ختم ہو جاتا ہے یا مادہ خارج ہو جاتا ہے اور مرد شرمندہ ہو جات ہے۔

٭مردانہ خود لذتی سائنس کی تحقیق میں
مشت زنی سے جسم کی نسبت دماغ زیادہ ماؤ ف ہوتا ہے۔کیونکہ اس سے نو خیز احساس جرم کا یا گناہ کا یہ تلخ احساس نہ ہوتو مشت زنی نقصا ن دہ نہیں ہوتی ۔مردانہ کمزوری ، سرعت انزال وغیرہ کی ایک اہم وہ خود لذتی ہے ۔ اکثر نو خیز لڑکے مشت زنی کرتے ہین منی کے اخراج سے مرد کا عضو تناسل دخو ل میں دقت محسوس نہیں کرتا لیکن ہاتھ یا کسی دوسری شے کی رگڑ سے حشفے اور عضو مخصوص کی رگوں کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ پوری طرح نشوونما نہیں پا سکتا جس سے آدمی مقاربت کے قابل نہیں رہتا - کثرت اور تواتر سے مشت زنی کا ارتکاب تباہ کن ہوتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ گناہ کی الجھن وابستہ ہو جاتی ہے ۔فرد کو احساس گناہ سے نجات دلانا ضروری ہے ۔جو لوگ 25 سال کی عمر کے بعد زنا سے بچنے کے لیے کبھی کبھا ر مشت زنی کرتے ہیں ان کی صحت پر کوئی نا خوشگوار اثر نہیں پڑتا